﴿درس
ختمِ بخاری شریف﴾
(۲)
افادات: مفتی عمر فاروق لوہاروی ، شیخ
الحدیث دارالعلوم لندن- یوکے
ترتیب: الیاس لوہاروی (جامعہ اسلامیہ،
ڈابھیل)
میزان کا ذمہ دار کون ہوگا؟
قیامت کے دن میزان کس کے ہاتھ
میں ہوگی؟ میزان کا ذمہ دار کون ہوگا؟ اس میں مختلف اقوال
ہیں:
(۱)بعض
کہتے ہیں، کہ میزان اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاتھ میں
ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہی وزن کریں گے، تولیں
گے۔ انھوں نے اس کے لیے اس روایت سے استدلال کیا ہے، جو
”صحیح بخاری“ کی ”کتاب التفسیر“ اور ”کتاب التوحید“
میں گزر چکی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں ، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: یدُ اللّٰہ ملأیٰ لا تغیضہا
نفقة سحاء اللیل والنہار وقال: أ رأیتم ما أنفق منذ خلق السماءَ
والأرضَ فانہ لم یَغض ما فی یدہ کان عرشُہ علی الماء وبیدہ
المیزانُ یخفض ویرفع. دوسرے طریق میں ”وبیدہ“
کے بعد ”الاُخرٰی“ کا اضافہ ہے۔
”اللہ تعالیٰ کا ہاتھ بھرا ہوا
ہے۔ دن ورات مسلسل خرچ کرنا اس کو کم نہیں کرتا ہے۔ اور فرمایا
کہ دیکھو! اللہ تعالیٰ نے آسمان وزمین کو پیدا فرمایا،
اس وقت سے اب تک کس قدر خرچ کیا، لیکن پھر بھی اس نے اللہ تعالیٰ
کے ہاتھ میں جو کچھ ہے، اسے کم نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ
کا عرش پانی پر تھا، یعنی تخلیق ارض وسماء کے وقت اللہ
تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا۔ یا اللہ تعالیٰ
کا عرش پانی پر ہے، یعنی فی الحال بھی اللہ تعالیٰ
کا عرش پانی پر ہے۔ اور اس کے ہاتھ میں یا اس کے دوسرے
ہاتھ میں میزان ہے، وہ اس کو کسی کے لیے پست اور کسی
کے لیے بلند کریں گے۔“
لیکن امام داودی اور امام خطابی
وغیرہ شرّاح رحمہم اللہ فرماتے ہیں، کہ یہاں قیامت میں
قائم ہونے والی میزان کا بیان نہیں؛ بلکہ میزانِ
رزق کا بیان ہے، جیساکہ سباقِ کلام اس پر دلالت کرتا ہے۔اور خفض
ورفع سے مراد دنیا میں روزی کا کم و بیش کرنا ہے، اور
مطلب یہ ہے، کہ رزق کی تقسیم کا معاملہ اللہ تعالیٰ
کے ہاتھ میں ہے، وہ کسی پر روزی تنگ کرتے ہیں اور کسی
پر فراخ۔ اگرچہ ان کے خزانے میں کوئی ٹوٹا نہیں، مگر وہ اپنی
حکمت ومصلحت کے موافق کسی کو زیادہ روزی دیتے ہیں
اور کسی کو کم دیتے ہیں۔
(۲) امام بیہقی
رحمہ اللہ علیہ نے حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، کہ مَلَکُ
الموتِ موٴکَّلٌ بالمیزان. ”ملک الموت میزان کے ذمہ دار
ہوں گے۔“
یہاں یہ ملحوظ رہے، کہ قرآن مجید
اور احادیث صحیحہ میں روح قبض کرنے والے فرشتے کو ”ملک الموت“ ہی
سے تعبیر کیا گیا ہے، ”عزرائیل“ کے نام سے نہیں؛
البتہ بعض آثار میں ”عزرائیل“ وارد ہوا ہے۔
(۳)امام
بخاری رحمہ اللہ علیہ نے ”التاریخ الکبیر“ میں، یعقوب
بن سفیان نے اپنے ”فوائد“ میں اور ابوالشیخ نے ”کتاب السنة“ میں
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہما سے موقوفاً روایت کیا
ہے، کہ صاحبُ المیزان یومَ القیامة
جبریل.
”قیامت کے دن میزان کے ذمہ دار حضرت جبریل علیہ السلام
ہوں گے۔“ بعض علماء فرماتے ہیں، کہ حضرت جبریل علیہ
السلام دنیا میں میزان شریعت کو لانے والے ہیں، اس
لیے اس پر عمل کی کیفیت کے اظہار کے لیے قیامت
کے دن وہ میزان بھی ان کے سپرد کی جائے گی۔
(۴) ”نوادر الاصول“
للحکیم الترمذی میں ہے، کہ حضرت جبریل علیہ السلام
ترازو کی ڈنڈی کو ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہوں گے،اور کانٹے پر ان کی
نظر ہوگی۔ اور حضرت میکائیل علیہ السلام میزان
کے نگراں ہوں گے۔
قیامت کے دن وزنی پلڑا نیچے
کی طرف جھکے گا یا اوپر کی طرف اٹھے گا؟
قرآن وسنت میں کہیں اس کی
صراحت نہیں ہے، کہ قیامت کے دن نیکیوں والے پلڑے کا وزنی
ہونا یا ہلکا ہونا کیسے ظاہر ہوگا؟ البتہ علماء کے اس میں تین
اقوال ہیں:
(۱) بعض
علماء فرماتے ہیں، کہ نیکیوں والے پلڑے کا وزنی ہونا ایک
نور کے ظاہر ہونے سے ہوگا، اور نیکیوں والے پلڑے کا ہلکا ہونا ظلمت کے
ظاہر ہونے سے ہوگا۔
دوسرے علماء فرماتے ہیں، کہ ایسا
نہیں ہوگا؛ بلکہ پلڑے کے نیچے جھکنے یا اوپر اٹھنے سے وزنی
ہونا اور ہلکا ہونا ظاہر ہوگا، چناں چہ:
(۲) شیخ
شہاب رملی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں،کہ جس طرح دنیا میں
وزنی پلڑا نیچے کی طرف جھکتا ہے،اور ہلکا پلڑا اوپر کی
طرف اٹھا رہتا ہے، اسی طرح قیامت کے دن وزنی پلڑا نیچے کی
طرف جھکے گا، اور ہلکا پلڑا اوپر کی طرف اٹھا رہے گا۔
(۳) علامہ
بدرالدین زرکشی رحمة اللہ علیہ نے بعض کے حوالہ سے نقل کیا
ہے، کہ آخرت میں دنیا کے برعکس وزنی پلڑا یعنی نیکیوں
کی وجہ سے وزنی پلڑا اوپر کی طرف اٹھے گا۔ اور جو پلڑا نیکیاں
نہ ہونے کی وجہ سے ہلکا ہوگا، وہ نیچے کی طرف رہے گا۔ ان
کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل
الصالح یرفعہ﴾ (الفاطر:۱۰) ”پاکیزہ کلمات اللہ تعالیٰ
کی طرف چڑھتے ہیں، اور عمل صالح ان کو اٹھاتا ہے۔“ کلمہ توحید
جیسے پاکیزہ کلمات اور دیگر اعمالِ صالحہ کا اوپر کی طرف
چڑھنا اور اٹھانا دلالت کرتا ہے، کہ اگر نیکیاں ہوں گی تو وہ
پلڑا اوپر کی طرف اٹھے گا، اور دوسرا پلڑا نیچے کی طرف رہے گا۔
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ بعض علماء کا یہ قول کہ دنیا کے
برعکس آخرت میں وزنی پلڑا اوپر کی طرف اٹھے گا،اور ہلکا نیچے
کی طرف رہے گا، ایساہی ہے جیسے ابلیس اور اس کی
قوم کے متعلق قرآن مجید میں ہے: ﴿انہ یراکم
ہو وقبیلہ من حیث لاترونہم﴾ (الاعراف:۲۷) ”وہ اور اس کی
قوم تم کو اس طور پر دیکھتی ہے، کہ تم ان کو نہیں دیکھتے
ہو۔“ محشر میں حال برعکس ہوگا، ہم ان کو دیکھیں گے، وہ ہم
کو نہیں دیکھ پائیں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
بندہ کہتا ہے، کہ بدرزرکشی رحمة اللہ
علیہ وغیرہ نے جن بعض علماء کے حوالہ سے نقل کیا ہے، بسا ممکن
ہے، ان بعض سے مراد شیخ عارف بن ابی جمرہ اندلسی رحمة اللہ علیہ
ہوں، کیوں کہ انھوں نے ”بہجة
النفوس“
میں یہ موقف اختیار فرمایا ہے۔
علامہ زرکشی رحمہ اللہ علیہ نے
اس موقف کو غریب اور علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ نے غریب
کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے قول ﴿فاما من
ثقلت موازینہ .... ﴾ سے مُصادم و مُعارض قرار دیا
ہے۔
بندہ کے ناقص خیال میں ﴿فاما من ثقلت موازینہ ...﴾
جیسی آیات سے اسے مُصادم ومُزاحم قرار دینا قابل غور ہے،
اس لیے کہ ان آیات میں موازین کی ثقالت وخفّت کا
ذکر ہے، لیکن ثقالت کیسے ثابت ہوگی، پلڑے کے اوپر اٹھنے سے یا
نیچے کی طرف جھکنے سے؟ ﴿فاما من
ثقلت موازینہ ...﴾ جیسی آیات اس
کے بیان سے ساکت ہیں، تو معارضہ کیسے ہوگا؟
”الموازین“ کس کی جمع ہے؟
﴿ونضع
الموازین﴾
اور ہم موازین قائم کریں گے، رکھیں گے۔
قرآن مجید میں بروز محشر وزنِ
اعمال کے بیان کے موقع پر ”موازین“ بصیغہٴ جمع ہی
استعمال ہوا ہے؛ البتہ احادیث میں جمع کے لفظ کے ساتھ ”موازین“
بھی آیا ہے،اور مفرد کے لفظ کے ساتھ ”میزان“ بھی آیا
ہے۔
یہاں آیت قرآنیہ میں
”الموازین“ کس کی جمع ہے؟
(۱) بعض
شراح نے اس موقع پر یہ بحث کرتے ہوئے بعض مفسّرین کا دوسری آیات
میں بیان کردہ ایک احتمال یہ ذکر کیا ہے، کہ یہ
”موزون“ کی جمع ہے۔ اس صورت میں موازین سے اعمالِ موزونہ
مراد ہوں گے،اور مطلب یہ ہوگا، کہ ہم قیامت کے دن اظہارِ عدل کے لیے
اعمالِ موزونہ کو حاضر کریں گے۔
یہ بات اگرچہ اپنی جگہ ناقابل
اشکال ہے، کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اعمال کو حاضر کریں
گے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ووجدوا
ما عملوا حاضرا﴾
(الکہف:۴۹) ”اور سب اہل محشر
اپنے کیے ہوئے اعمال کو حاضر پائیں گے۔“ اس کے علاوہ آیات
میں بھی یہ مضمون بیان ہوا ہے۔ پھر یہ ایک
الگ بحث ہے، کہ خود اعمال ہی کو موجود و حاضر پائیں گے، یا ان کی
جزا وسزا کو۔ مگر بندہ کے ناقص خیال میں یہ احتمال بعض
مفسرین نے جن دیگر آیات میں بیان کیا ہے،
وہاں جاری کرنا ہو، تو کریں، لیکن ﴿ونضع الموازین﴾ میں
جاری کرنے کی نہ کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور نہ ہی
مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسی لیے مشہور تفاسیر میں اِس
آیت کریمہ میں یہ احتمال بیان ہی نہیں
کیاگیا ہے، اور نہ ہی حافظ ابن حجر، علامہ عینی،
علامہ قسطلانی، شیخ الاسلام زکریا انصاری رحمہم اللہ جیسے
شراحِ حدیث نے اس کو یہاں ذکر کیا ہے۔ درحقیقت
ابواسحاق زَجَّاج نے سورة الاعراف کی آیت ﴿فمن ثقلت موازینہ﴾ کے ذیل
میں ”موازین“ کہنے اور ”میزان“ نہ کہنے کی دو وجوہ میں
سے ایک وجہ یہ ذکر کی ہے، کہ یہ ”موزون“ کی جمع ہے۔
انصاف کی بات یہ ہے، کہ یہ خواہ مخواہ بلا ضرورت ظاہر لفظ سے
عدول ہے، ورنہ اس آیت میں بھی حقیقت پر محمول کرنے میں
کوئی مانع نہیں ہے۔
(۲) لہٰذا
متعین طور پر کہا جائے گا، کہ یہاں ”الموازین“ یہ ”المیزان“
کی جمع ہے۔
”الموازین“ جمع کیوں لایاگیا؟
جب یہ ”المیزان“ کی جمع
ہے، تو سوال یہ ہے، کہ قیامت کے دن وزنِ اعمال کے لیے ایک
میزان ہوگی یا متعدِّد؟ اس کا جواب یہ ہے، کہ اس میں
دونوں ہی قول ہیں۔
قولِ اول: میزان متعدد ہوں گی۔
امام رازی رحمة اللہ علیہ نے اس کو اظہر قرار دیا ہے۔
میزان کا تعدّد کس اعتبار سے ہوگا؟
اس میں دو قول ہیں: (۱) اَفراد
یعنی عاملین کے تعدّد کے اعتبار سے میزان متعدد ہوں گی۔
ہر صاحب عمل کی میزان الگ ہوگی۔اس کو حضرت حسن بصری
رحمة اللہ علیہ نے اختیار کیا ہے۔ (۲) اَعمال
کے اعتبار سے میزان متعدد ہوں گی۔ ہر عمل کے لیے الگ الگ
میزان ہوگی۔ نماز کے لیے ایک میزان، روزہ کے
لیے ایک میزان، زکاة کے لیے ایک میزان، وعلیٰ
ہذا القیاس۔ امام رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں،
کہ ہوسکتا ہے قلوب کے افعال کے لیے ایک میزان ہو، اعضاء کے
افعال کے لیے ایک میزان ہو، اور قول سے متعلق امور کے لیے
مستقل ایک میزان ہو۔
قولِ ثانی: میزان ایک ہی
ہوگی۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک
یہی راجح ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ فرماتے
ہیں، کہ الاکثر علٰی أنہ انما ہو میزان
واحد.
”اکثر علماء اس بات پر ہیں، کہ میزان ایک ہی ہے۔“ شیخ
ابوحَیَّان اندلسی رحمة اللہ علیہ نے میزان ایک
ہونے کے قول کو جمہور کا قول قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ
فرماتے ہیں، کہ میزان ایک ہونے پر یہ اشکال نہ ہو، کہ
عاملین تو بہت زیادہ ہوں گے، ان سب کا وزن ایک میزان سے
کس طرح ہوسکے گا؟ کیوں کہ قیامت کے احوال کا دنیا کے احوال پر قیاس
نہیں کیا جاسکتا۔
جب میزان ایک ہوگی تو
پھرجمع کا صیغہ کیوں لایاگیا؟
(۱) میزان
کے پلڑے، کانٹا اور ڈنڈی وغیرہ اجزاء کے اعتبار سے جمع کا صیغہ
لایاگیا ہے۔ جیسے ”سراویل“ میں ایک قول
کے مطابق جمع کا صیغہ اجزاء ہی کے اعتبار سے مانا گیا ہے۔
(۲) عاملین
چونکہ کئی ہیں، تو ان کی طرف نظر کرتے ہوئے جمع کا صیغہ
لایاگیا۔
(۳) موزونات
یعنی صلاة وصوم وغیرہ یا قلب وقالب اور زبان کے اعمال کی
طرف نظر کرتے ہوئے جمع کا صیغہ لایا گیا۔
(۴) شیخ
صفی الدین ابن ابی المصنور رحمة اللہ علیہ اپنی
کتاب ”العقیدة“ میں فرماتے ہیں، کہ تمام مکلفین کے صحائف
کو ایک ہی وقت میں میزان میں رکھ کر وزن کیا
جائے گا، اور ہر آدمی اپنے اپنے وزن کے نتیجہ کو معلوم کرلے گا، اس
طرح میزان کلی کی طرف نظر کرتے ہوئے ایک ہے، اور اس کی
تفاصیل کی طرف نظر کرتے ہوئے جمع ہے۔ گویا تفاصیل
کا لحاظ کرتے ہوئے جمع کا صیغہ لایاگیا ہے۔
(۵) تفخیم
شان اور عظمت شان کے لیے جمع کا صیغہ لایاگیا ہے، کہ یہ
کوئی معمولی میزان و ترازو نہیں ہوگی، بلکہ بہت بڑی
میزان ہوگی۔
میزان کے پلڑوں کی وسعت
ابن شاہین نے حضرت عبداللہ بن عباس
رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے؛ آپ رضی اللہ عنہما
فرماتے ہیں: کِفّتا المیزانِ کاطباقِ الدنیا
کلِّہا.
میزان کے دونوں پلڑے دنیا کے تمام طبق کے مانند یعنی شَرق
وغَرب اور شَمال وجُنوب کو محیط دنیا کی ساری فضا کے
برابر ہوں گے۔
ابوالقاسم الطبری اللالکائی نے ”شرح اصول اعتقاد اہل السنة والجماعة“ میں،
ابوبکر الآجُرِّی نے ”کتاب الشریعة“ میں اور یحییٰ
بن صاعد نے ”زوائد الزہد لابن المبارک“ میں حضرت سلمان فارسی رضی
اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کیا ہے، کہ یُوضع
المیزانُ ولہ کِفّتان، لو وضع فی احداہما السمواتُ والارضُ ومَن فیہن
لَوَسِعَہ.
”میزان قائم کی جائے گی، جس کے دو پلڑے ہوں گے، اگر ان میں
سے ایک پلڑے میں آسمان وزمین اور ان میں جو مخلوقات ہیں،
ان سب کو رکھ دیا جائے، تو وہ ان کو اپنے اندر سمالے۔“
حاکم رحمہ اللہ نے حضرت سلمان رضی
اللہ عنہ سے مرفوعاً نقل کیا ہے، کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
یُوضع المیزانُ یومَ القیامة،
فلو وُزن فیہ السمواتُ والارض لَوسِعتْ. ”قیامت کے
دن میزان قائم کی جائے گی، وہ اتنی بڑی ہے، کہ اس میں
آسمان وزمین کا وزن کرنا چاہیں، تو ہوسکتا ہے۔“
حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ”صحیحٌ
علٰی شرطِ مسلم“ قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمة اللہ علیہ
نے ان کی موافقت کی ہے۔ اس حدیث کو حماد بن سلمہ سے مرفوع
روایت کرنے میں ہُدْبَة بن خالد متفرد ہیں۔ ابونصر
التّمار، مُعاذ بن معاذ العَنبری وغیرہ ایک جماعت نے اس کو حضرت
سلمان رضی اللہ عنہ سے موقوف روایت کیا ہے۔ والجماعةُ اولٰی بِالحفظِ مِنْ
واحدٍ.
اس لیے راجح اس کا موقوف ہونا ہے۔
اس سے معلوم ہوگیا، کہ شیخ
ابوحَیّان اندلسی رحمة اللہ علیہ نے میزان کی ہیئت،
طول اور اس کے احوال کے متعلق روایات کو غیر ثابت قرار دیا ہے،
تو اس سے اگر ان کی مراد یہ ہو، کہ رفع ثابت نہیں، تو یہ
تسلیم ہے۔ اور اگر مطلقاً غیر ثابت مراد ہو، تو یہ محلِّ
غور ہے۔
یہاں یہ یاد رہے، کہ ان
روایتوں میں تمثیلی صورتوں کا بیان ہے، جو میزان
کے پلڑوں کی وسعت بتانے کے لیے ذکر کی گئی ہیں۔
بڑی سے بڑی وسعت جو عادتاً انسان کے ذہن میں آسکتی ہے، وہ
دنیا کی وسعت ہے۔ اس سے آگے آسمان وزمین کی وسعت ہے۔
اور اگر کوئی بہت ترقی کرتا ہے، تو یہ سمجھتا ہے، کہ سب سے بڑی
چیز وہ ہوگی، جس میں آسمان وزمین بھی سما جائیں،
اور آسمان وزمین کی سب مخلوق بھی سماجائیں۔ روایات
کا مقصد تحدید نہیں ہے۔ اب یہ اشکال نہ ہوگا، کہ حضرت
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے معلوم ہوتا ہے، کہ میزان کے
دونوں پلڑے اتنے بڑے ہیں جتنا بڑا یہ دنیا کا طبق۔ حضرت
سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایت سے معلوم ہوتا
ہے، کہ میزان میں آسمان وزمین کا وزن کرنا چاہیں، تو
ہوسکتا ہے۔ اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی موقوف روایت
سے معلوم ہوتا ہے، کہ اگر ایک پلڑے میں آسمان وزمین اور ان کی
مخلوقات رکھ دی جائیں، تو سب سماجائیں۔ کیوں کہ روایات
کا مقصد تحدید ہے ہی نہیں؛ بلکہ تمثیل ہے۔
یہاں کسی کو خیال آئے،
کہ اتنی بڑی ترازو قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
جواب اس کا یہ ہے، کہ اعمال کا اجر
وثواب میرے اور آپ کے حساب سے نہیں ملے گا؛ بلکہ ربِّ شکور کے حساب سے
ملے گا۔ جیساحاکم ہوتا ہے، اسی کے حساب سے وہ انعام اور داد
ودِہش کرتا ہے۔ اسی لیے نوابوں کا انعام اور طریقے کا
ہوتا تھا، اور بادشاہوں کا انعام اور طرح کا ہوتا تھا۔ کسی نے
عبدالملک بن مروان کی مدح کی، تو اس نے سو اونٹ دیے۔ اس
نے حاکر حَجّاج کی مدح کی، تو اس نے کہا، کہ امیرالمومنین
کا مسئلہ نہ ہوتا، تو میں تجھ کو سو اونٹ دیتا، لے میں پچاس دے
رہا ہوں۔ تو جیسا حاکم، ویسا انعام ہوتا ہے۔ اور یہاں
تو معاملہ احکم الحاکمین کے انعام کا ہے، وہ جب اعمالِ حسنہ پر اجر وثواب دیں
گے، تو اپنے حساب سے عطا فرمائیں گے۔ ان کا حساب کیا ہوگا؟ اس
کا بیان کم اور اَعداد کے حساب سے ﴿من جاء
بالحسنة فلہ عشر امثالہا﴾ (الانعام:۱۶۰) (جو شخص ایک نیکی لے کر
آئے گا، اس کو دس گُنا ثواب دیا جائے گا۔) میں ہوا ہے۔ دس
سے بڑھا تو سات سو۔اور آگے فرمایا: ﴿واللّٰہ
یضاعف لمن یشاء﴾ (البقرة:۲۶۱) ”اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے
چاہیں گے، بڑھا دیں گے۔“ کیف کا کیا حال ہوگا؟ اجر
وثواب کتنا بڑا ہوگا؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک حدیث سنیے،
حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الحمد
للّٰہ تملأ المیزان، وسبحان اللّٰہ والحمد للّٰہ تملأن ما
بین السمٰوٰت والارض. اخرجہ مسلم. ”الحمد للّٰہ“ میزان
کو بھردے گا۔ اور ”سبحان اللّٰہ“ اور ”الحمد للّٰہ“ آسمان وزمین
کے بیچ کو بھردیں گے۔“
اب سوال یہ ہے، کہ آسمان وزمین
کی کشادگی کے بقدر میزان یا اس کے ایک پلڑے کی
وسعت کا یہ حال، کہ آسمان و زمین اور ان کی مخلوقات اس میں
سماجائیں۔ اور صرف ”الحمدللہ“ کا ثواب بھی اتنا ہے، یا
”سبحان اللہ“ اور ”الحمدللہ“ کا ثواب اتنا، تو باقی اعمال کا ثواب کہاں جائیگا؟
جواب یہ ہے، کہ اعمال کا اجر و ثواب
نورانیت والاہوگا، اس لیے اس میں تزاحُم نہیں ہوگا۔
اگر آپ ایک ٹیوب لائٹ روشن کردیں، تو ساری مجلس چمک جائے
گی۔ چار روشن کردیں، تو اور چمک جائے گی۔ سولہ روشن
کردیں، تو چمک میں اور اضافہ ہوجائے گا، لیکن کیا ان روشنیوں
میں تزاحم ہوگا؟ نہیں۔ اسی طرح ایک ”الحمدللہ“ یا
”سبحان اللہ“ اور ”الحمدللہ“ کا ثواب نورانی پورے ترازو کو بھردے گا، دوسرے
اعمال کے انوار بھی اس میں مدغم اور مُنضم ہوتے چلے جائیں گے،
اور اُن میں کوئی تزاحم نہیں ہوگا۔
﴿القسط﴾
”القسط“ ترکیب میں کیا
واقع ہے؟ اس میں دو قول ہیں:
قولِ اول: ”الموازین“ کی صفت
ہے۔
اس پر اشکال یہ ہے، کہ ”القسط“ مفرد
ہے، اور ”الموازین“ جمع ہے۔ مطابقت نہ ہونے کی وجہ سے ”القسط“ یہ
”الموازین“ کی صفت کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کے دو جواب ہیں:
(۱) ”القسط“
مصدر ہے اور المصدرُ لا یُثَنّٰی ولا یُجْمَعُ. اس لیے
”الموازین“ جمع ہونے کے باوجود مبالغتاً اس کی صفت ”القسط“ مفرد لانا
صحیح ہے۔ معنی ہوں گے: سراسر یا سراپا انصاف والی
ترازو۔
(۲) ابواسحاق
زَجّاج رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ ”القسط“ یہ بحذف المضاف
”الموازین“ کی صفت ہے۔ ”القسط“ سے پہلے لفظ ”ذوات“ مقدر ہے۔
تقدیر عبارت ہے: ونضع والموازینَ ذواتِ القسطِ. اب موصوف وصفت میں
مطابقت ہوگئی۔ موصوف بھی جمع ہے، اور صفت بھی جمع ہے۔
قولِ ثانی: شیخ ابوحَیّان
رحمہ اللہ علیہ نے بدرجہٴ اِمکان واحتمال ذکر کیا ہے، کہ
”القسط“ یہ ”الموازین“ کی صفت نہیں ہے؛ بلکہ فعل ”نضع“ کا
مفعول لہ ہے۔ اس صورت میں معنی ہوں گے: ونضعُ الموازینَ لِاَجْلِ القسطِ. ”ہم
انصاف کے لیے یعنی انصاف کے اظہار کے لیے قیامت کے دن
ترازو قائم کریں گے۔“
﴿لیوم القیامة﴾
حضرات شراح اور مفسرین نے یہاں
”لام“ میں پانچ احتمالات ذکر کیے ہیں:
(۱)لام ”فی“
کے معنی میں ہے۔ یہ کوفیین کا قول ہے۔
متقدمین میں سے ابن قتیبہ نے اور متأخرین میں سے
ابن مالک نے اس کو اختیار کیا ہے۔ امام نووی رحمة اللہ علیہ
نے بھی اسی کو اختیار کیاہے۔
(۲) لام ”عند“ کے معنی
میں ہے۔
(۳) بحذف المضاف یہ
لام اجلیہ ہے۔ تقدیر عبارت ہوگی: لحسابِ یوم القیامة. بالجزاءِ یومِ
القیامة. یا لاِہل یومِ القیامة.
(۴) لام توقیت یعنی
بیانِ وقت کے لیے ہے۔ تقدیر عبارت ہوگی: لِوقتِ یوم القیامة.
(۵) لام اختصاص کے لیے
ہے۔ اور آیت کے معنی ہیں: اختصاصُ
وضع المیزانِ بیومِ القیامة. ”میزان
قائم کرنا قیامت کے دن کے ساتھ مخصوص ہے۔“
سب بنوآدم کے اعمال تولے جائیں گے؟
وأنّ
أعمالَ بنی آدمَ وقولَہم یُوزَن. ”بنوآدم کے اعمال
واقوال تولے جائیں گے۔“
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کا
ظاہر قول ”وأنّ اعمالَ بنی آدمَ وقولَہم یُوزَن.“ عام
معلوم ہوتا ہے، کہ سب انسانوں کے اعمال تولے جائیں گے، حالاں کہ ایسا
نہیں؛ بلکہ ان میں سے وہ موٴمنین خاص اور مستثنیٰ
ہوں گے، جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے۔ جن کا تعارف حدیث
پاک میں ”ہم الذین لا یسترقون ولا یکتوون
ولا یتطیّرون وعلٰی ربّہم یتوکّلون“ (وہ
لوگ جھاڑ پھونک نہیں کراتے ہیں، داغ نہیں لگاتے ہیں،
بدفالی نہیں لیتے ہیں اور اپنے رب ہی پر بھروسہ
کرتے ہیں) کے الفاظ کے ساتھ کرایاگیا ہے۔ ان کے اعمال کا
وزن نہیں ہوگا۔ ”صحیحین“ کی روایت میں
بلا حساب جنت میں داخل ہونے والوں کی تعداد ستّر ہزار آئی ہے۔
”جامع ترمذی“ وغیرہ کی روایت میں ہے، کہ ستّر ہزار
میں سے ہر ایک ہزار کے ساتھ ستّرہزار ہوں گے، پھر اللہ تعالیٰ
تین لپ بھر کر موٴمنین کو بلا حساب جنت میں داخل کریں
گے۔ طبرانی وغیرہ کی روایت میں سترہزار میں
سے ہر ایک آدمی کے ساتھ ستر ہزار کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ
ہمیں بلا استحقاق محض اپنے فضل سے ان میں داخل فرمادیں، آمین۔
صاحب حاشیة الجمل فرماتے ہیں،
کہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے اعمال کا وزن بھی نہیں
ہوگا۔ سنن ابی داود کی ایک روایت میں ہے، کہ
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلى الله عليه
وسلم سے دریافت کیا، کہ کیا آپ اپنے اہل کو قیامت کے دن یاد
کریں گے؟ تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: امّا فی ثلاثة مواطنَ فلا یذکر أحدٌ
احدًا: عندَ المیزان حتّٰی یَعلمَ أَیَخِفُّ میزانُہ،
او یَثْقُلُ، الحدیث. ”تین مواقع میں کوئی کسی
کو یاد نہیں کرے گا: میزان کے موقع پر، یہاں تک کہ وہ جان
لے، کہ اس کی میزان ہلکی ہوتی ہے یا وزنی۔“
ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اس روایت
کا ظاہر یہ ہے، کہ یہ ہر ایک کو عام اور شامل ہے، اور اس سے کوئی
نبی اور رسول مستثنیٰ نہیں۔ گویا انبیاء
بھی میزان کے موقع پر جب تک انھیں اپنے وزنِ اعمال کا نتیجہ
معلوم نہیں ہوجائے گا، کسی کو یاد نہیں کریں گے۔
اس سے معلوم ہوا، کہ انبیاء علیہم السلام کے اعمال بھی تولے جائیں
گے۔ لیکن دوسرے علماء فرماتے ہیں، کہ حضرات انبیاء علیہم
السلام مستثنیٰ ہیں، جیسے ستّرہزار والی جماعت موٴمنین
مستثنیٰ ہے۔ اور یہ حدیث موٴول ہے۔ قبل
الاعلام پر محمول ہے، یا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا عام اسلوب اختیار
فرمانا اس لیے ہے، تاکہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا
اور کوئی زوجہٴ مطہرہ آپ پر تکیہ نہ کرلے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ
فرماتے ہیں، کہ موٴمنین میں سے جن کے پاس کوئی سیئہ
نہ ہوگا، صرف حسنات ہی ہوں گی، وہ بلا حساب و میزان جنت میں
داخل ہوں گے، جیسے سترہزار اور جن کو اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ
لاحق کرنا چاہیں۔ اسی طرح کفار میں سے جن کے پاس کفر کے
علاوہ دوسرا کوئی گناہ نہ ہوگا، اور نہ کوئی بھلائی کا کام
ہوگا، تو بلا حساب ومیزان ان کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔
کفار کے اعمال کا وزن ہوگا؟
”بنی آدم“ میں کفار بھی
داخل ہیں، لہٰذا اس کے ظاہر کا تقاضہ ہے، کہ کفار کے اعمال کا بھی
وزن ہوگا۔ ویسے اس مسئلہ میں دو قول ہیں:
(۱) ابوبکر
عبدالعزیز قاضی ابویعلی، ابوالحسن تمیمی، علی
بن سعید رَسْتَغْنی رحمہم اللہ اور بقول علامہ آلوسی رحمہ اللہ
کثیر علماء فرماتے ہیں، کہ کفار کے اعمال کا وزن نہیں ہوگا، کیوں
کہ ان کے اعمال تو اکارت وحبط ہوجانے کی وجہ سے ان کے پاس کوئی حسنہ
نہیں، جس کا وزن کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿فلا نقیم لہم یوم القیامة وزنا﴾
(الکہف:۱۰۵) ”قیامت کے دن
ہم ان کے لیے ذرا بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔“
لیکن اس کا جواب دیاگیا
ہے، کہ یہ ان کی حقارتِ قدر سے کنایہ ہے، چناں چہ جب کسی
آدمی کی دوسرے کی نظر میں کوئی قدر و قیمت نہ
ہو، تو کہتے ہیں: ان
فلاناً لایقیم لفلان وزناً. لہٰذا اس سے عدمِ وزن لازم
نہیں آتا۔
(۲) ابوحفص
برمکی، ابوسلیمان دِمَشقی، ابوطالب مکی، حافظ ابن حجر
عسقلانی، ملاعلی قاری رحمہم اللہ وغیرہ فرماتے ہیں،
کہ کفار کے اعمال کا وزن ہوگا۔ ان کی دلیل اللہ تعالیٰ
کا یہ ارشاد ہے: ﴿ومن خفت
موازینہ فاولئک الذین خسروا انفسہم فی جہنم خٰلدون تلفح
وجوہہم النار وہم فیہا کلحون﴾ (الموٴمنون: ۱۰۳، ۱۰۴) ”اور جس شخص کا
پلڑا ہلکا ہوگا، سو یہ وہ لوگ ہوں گے، جنھوں نے اپنا نقصان کرلیا، اور
جہنم میں ہمیشہ کے لیے رہیں گے، ان کے چہروں کو آگ جھلستی
ہوگی، اور اس میں ان کے منھ بگڑے ہوں گے۔“ ظاہر ہے، کہ کوئی
بھی موٴمن ہمیشہ کے لیے جہنم میں نہیں رہے
گا، اور اِس آیت میں تو پلڑا ہلکا ہونے والوں کے لیے ”خلود“ بیان
کیاگیا ہے، معلوم ہوا کہ آیت کفار کے حق میں ہے۔ نیز
اس کے بعد متصلاً ارشاد ہے: ﴿الم تکن
اٰیٰتی تتلی علیکم فکنتم بہا تکذبون﴾
(الموٴمنون:۱۰۵) ”کیا میری
آیتیں تم کو پڑھ کر سنائی نہیں جایا کرتی تھیں،
اور تم ان کو جھٹلایا کرتے تھے۔“ اللہ تعالیٰ کی آیتوں
کی تکذیب کرنے والے کفار ہیں۔ الغرض اس آیت سے کفار
کے اعمال کا وزن کیا جانا ثابت ہوتا ہے۔
کفار کے وزنِ اعمال کی کیفیت
کفار کے اعمال کا وزن کس طرح ہوگا؟ امام
قرطبی رحمة اللہ علیہ نے ”التذکرة“ میں دو صورتوں کے ساتھ اس کا
جواب دیا ہے، لیکن ان سے قبل امام بیہقی رحمة اللہ علیہ
ان دواحتمالات کو بیان کرچکے ہیں:
(۱) ان کے
کفر یا کفر اور اعمالِ کفر کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا، اور
دوسرا حسنات والا پلڑا خالی ہوگا، اس لیے کہ انھوں نے اگر کوئی
بھلائی کا کام کیا بھی ہے، تو کفر کی وجہ سے وہ بے اثر
ہوگا، لہٰذا ان کو جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔
(۲) ان کے
کفریا کفر اور اعمالِ کفر کو ایک پلڑے میں رکھا جائے گا، اور دنیا
میں جو بھلے کام کیے ہوں گے، وہ دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں
گے، لیکن ایمان نہ ہونے کی وجہ سے وہ نیکیوں والا
پلڑا کفر والے پلڑے کے مقابلے میں ہلکا رہ جائے گا، اور ان کو جہنم میں
بھیج دیا جائے گا۔ ہاں! اچھے کاموں کی وجہ سے اُن کفار کی
بہ نسبت انھیں کم عذاب ہوگا، جنھوں نے دنیا میں اچھے کام نہیں
کیے ہوں گے۔ یہاں یہ ملحوظ رہے، کہ ﴿فلا یخفف عنہم العذاب﴾
(البقرة:۸۶) وغیرہ آیات میں
جس عذاب کی عدمِ تخفیف کا ذکر ہے، وہ بعد تجویز ہے، یعنی
فیصلہ کے بعد پھر عذاب میں تخفیف نہیں ہوگی۔
”شرح عقائد السبکی“ میں ہے، کہ
امام ابومنصور ماتریدی رحمة اللہ علیہ سے پوچھا گیا، کہ کیاکافر
کے لیے میزان قائم کی جائے گی؟ وہ خاموش رہے، کوئی
جواب نہیں دیا۔ دوسری مرتبہ دریافت کرنے پرجواب دیا،
کہ کافر کے لیے میزان تمییز قائم کی جائے گی،
اگرچہ ان کے حسنات و سیئات کے پلڑے مُساوی نہ ہوں گے۔ علامہ
انورشاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اس سے میں
نے سمجھا، کہ کافر کے اعمال اگرچہ بے وزن ہیں، مگر جس کی سیئات
زیادہ ہوں، اور جس کی کم ہوں، ان میں تمییزکی
جائے گی۔ گویا اسی اعتبار سے ان کے عذاب میں کمی
بیشی ہوگی۔ بندہ کہتا ہے، کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ
رحمة اللہ علیہ نے بھی اپنے ”فتاویٰ“ میں اس کی
طرف اشارہ کیاہے۔
ایمان کا وزن ہوگا؟
ایمان کا وزن ہوگا یا نہیں؟
علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ علیہ نے ”الحاوی
للفتاویٰ“ کی جلد دوم میں قدرے تفصیل کے ساتھ منظوم
انداز میں یہ سوال اور اس کا جواب ذکر کیا ہے۔ جواب کا
خلاصہ یہ ہے، کہ حکیم ترمذی رحمة اللہ علیہ نے ”نوادر
الاصول“ میں تصریح کی ہے، اور انھیں سے امام قرطبی
رحمة اللہ علیہ نے ”التذکرة“ میں نقل کیا ہے، کہ وزن اعمال کے
ساتھ خاص ہے، ایمان کا وزن نہیں ہوگا، کیوں کہ وزن کے لیے
اس کا مقابل ضروری ہے، اور ایمان کا مقابل کفر ہے، اور ایمان
کفر کے ساتھ بالکل جمع نہیں ہوسکتا۔ یعنی میزان کے
پلڑے میں ایک چیز رکھی جائے، تو دوسرے پلڑے میں اس
کی ضد رکھی جاتی ہے، جیسے حسنات ایک پلڑے میں،
تو دوسرے پلڑے میں سیئات۔ یہ توہوسکتا ہے، کیوں کہ
بندئہ موٴمن کبھی دونوں چیزوں کو انجام دیتاہے، لیکن
یہ محال ہے کہ کوئی آدمی خاتمہ کے وقت کفر بھی رکھتا ہو
اور ایمان بھی، کہ ایک پلڑے میں ایمان اور دوسرے
پلڑے میں کفر کو رکھا جائے۔ علامہ نسفی رحمة اللہ علیہ نے
بھی ”بحرالکلام“ میں اسی موقف کو اختیار کیاہے۔
بعض علماء ایمان کے وزن کے قائل ہیں۔
ان کی دلیل ”حدیث
البِطاقَة“
ہے، جس میں ایک آدمی کے ننانوے دفتر کے مقابلے میں اس
پرچہ کا وزن دار ہونا بیان کیاگیا ہے، جس میں ”اشہد ان لا الہ الا اللّٰہ وان محمدا عبدہ
ورسولہ“
لکھا ہوگا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے، کہ ایمان کا وزن ہوگا۔ اس
اعتبار سے ہرموٴمن کی میزان ثقیل ہوگی۔ یہ
حضرات ﴿فمن ثقلت موازینہ فاولئک ہم المفلحون﴾
(الاعراف: ۸، الموٴمنون:۱۰۲) جیسی نصوص میں تاویل
کرتے ہیں، اور کہتے ہیں، کہ ﴿ہم
المفلحون﴾
کے معنی ہیں: الناجونَ
مِن الخلود.
”ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنے سے نجات پانے والے۔“ ﴿فی عیشة راضیة﴾
(القارعة:۷) کا
مطلب ہے: یوماً مّا. ”کسی نہ کسی دن وہ پسندیدہ عیش
میں ہوں گے۔“ امام قرطبی رحمة اللہ علیہ نے اس تاویل
میں نظر قائم کی ہے، کہ یہ بات خارج سے ایسی دلیل
کی محتاج ہے، جس میں اس کی صراحت ہو۔ آیات واحادیث
کی نصوص کا ظاہر تو اسی پر دلالت کرتا ہے، کہ جس کی میزان
ثقیل ہوگی، وہ مطلقاً جہنم سے بچ جائے گا، اور جنت کا سزاوار ہوگا۔
”حدیث
البطاقة“
کے متعلق حکیم ترمذی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ اس میں
جس کلمہ کے وزن کا ذکر ہے، وہ کلمہ بعد الایمان ہے، جو موٴمن کی
زندگی میں کسی وقت غایتِ اخلاص سے نکل گیا ہوگا۔
بعض علماء جو ایمان کے وزن کے قائل ہیں،
وہ فرماتے ہیں، کہ محشر میں وزن دومرتبہ ہوگا۔ اوّل ایمان
و کفر کا وزن ہوگا۔ اس وزن میں ایک پلڑا خالی رہے گا،اور
دوسرے پلڑے میں اگر وہ موٴمن ہے، تو ایمان اور اگر وہ کافر ہے،
تو کفر رکھا جائے گا، گویا دوسرے پلڑے میں اس کی ضد رکھنا ضروری
نہیں، کہ محال لازم آئے، بہرحال، دوسرا وزن صرف موٴمنین کے نیک
و بد اعمال کا ہوگا، ایک پلڑے میں حسنات اور دوسرے پلڑے میں سیئات
کو رکھ کر تولا جائے گا، اور اسی کے مطابق ان کو جزا وسزا ملے گی۔
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی قدس سرہ نے اسی
کو اختیار فرمایا ہے۔
جنات کے اعمال تولے جائیں گے؟
وأن
اعمال بنی آدم ... یہاں امام بخاری رحمة اللہ علیہ
نے بنوآدم کا ذکر کیا ہے، کہ ان کے اعمال واقوال کا وزن کیا جائے گا،
تو کیا بنوالْجَانّ یعنی جنات کے اعمال و اقوال کا وزن نہیں
ہوگا؟ کیوں نہیں؟ جنات کے اعمال و اقوال کا بھی وزن ہوگا۔
جیسے بنو آدم مکلف ہیں، ویسے جمہور کے نزدیک بنوالجانّ بھی
مکلف ہیں۔ عام طور پر نصوص میں خطاب تغلیباً بنو آدم کو
ہوتا ہے، جنات طبعاً اس میں داخل ہوتے ہیں۔ جیسے مذکر وموٴنث
میں عام طور پر تغلیباً مذکر کو خطاب ہوتا ہے، موٴنث تبعاً اس میں
داخل ہوتی ہے۔ امام رحمة اللہ علیہ نے بھی یہاں اسی
اسلوب کو اختیار فرمایا ہے۔
پھر جنات میں جو مطیعین
ہیں، وہ جنت میں جائیں گے یا نہیں؟ یہ ایک
مستقل بحث ہے، جو جلدِاوّل میں ”بَدْء
الخَلْق“
کے ”باب ذکر الجن وثوابہم وعقابہم“ میں
پڑھ لی ہوگی۔
قیامت کے دن وزن ہونے والی چیز
وأن
اعمال بنی آدم وقولَہم یُوزَن. ”بنوآدم کے اعمال
واقوال وزن کیے جائیں گے۔“ قیامت کے دن کیا چیز
وزن کی جائے گی؟ اس میں تین اقوال ہیں:
(۱)امام
بغوی اور حافظ ابن کثیر رحمہما اللہ وغیرہ نے نقل کیا ہے،
کہ اصحابِ اعمال تولے جائیں گے۔ اس کے قائل کون ہیں؟ صراحت کے
ساتھ اس کی دریافت مشکل ہے۔ ہاں! ایک اثر امام ابن ابی
شیبہ رحمة اللہ علیہ نے اپنے ”مصنَّف“ میں اور امام ابونُعیم
اصبہانی رحمة اللہ علیہ نے ”حلیة الأولیاء“ میں
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: زِنوا
انفسَکم قبلَ اَنْ تُوزَنُوا وحاسبُوہا قبلَ أنْ تُحاسَبُوا. ”تم
اپنے نفسوں کو وزن کرو قبل اس کے، کہ تم کو وزن کیا جائے۔ اور اپنا
حساب لو قبل اس کے، کہ تمہارا حساب لیا جائے۔“ ممکن ہے، اس سے کسی
نے یہ اخذ کرلیا ہو، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک
خود صاحب عمل انسان تولا جائے گا۔ اگر یہی بات ہے، تویہ
اثر اِس باب میں صراحت کا درجہ نہیں رکھتا، کیوں کہ وزنِ نفس سے
مراد وہی ہے، جو اگلے الفاظ میں ”حاسِبوہا
قبلَ ان تُحاسَبوا“ سے ذکر کیاگیا ہے۔ یعنی
آدمی جو بات کہے، تول کر کہے، جو کام کرے، سوچ کرکرے، کہ قیامت کے دن
مجھے اس کا حساب دینا ہے، جواب دینا ہے۔
باقی رہے دو قول، وہی معروف ہیں،
جن میں سے ایک یہ ہے، کہ صحائف اعمال تولے جائیں گے۔
اور دوسرا قول یہ ہے، کہ خود اعمال تولے جائیں گے۔ امام بیہقی
رحمة اللہ علیہ نے قولِ اول کو اولاً ذکر کیا ہے، اور قولِ ثانی
کو برسبیل احتمال ذکر کیاہے، اور کسی کو ترجیح نہیں
دی ہے، لیکن دوسرے حضرات کسی نہ کسی کو ترجیح دیتے
ہیں، چناں چہ:
(۲) ابوبکر
بن فُورَک، امام الحرمین، صاحب المُفہم ابوالعباس القرطبی، صاحب
التذکرہ والجامع الاحکام القرآن ابوعبداللہ القرطبی، ابوالحسن مَنُوفی
رحمہم اللہ وغیرہ نے اس قول کو ترجیح دی ہے، صحائف اعمال تولے
جائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی
منقول ہے، جیساکہ تفسیر قرطبی وغیرہ میں ہے۔
امام فخرالدین رازی رحمة اللہ علیہ نے عامّةُ المفسرین سے
اور علاّمہ آلوسی رحمة اللہ علیہ نے قاضی بیضاوی
رحمة اللہ علیہ کے قول پر بنیاد رکھتے ہوئے جمہور سے یہی
نقل کیا ہے۔ ابن عبدالبر مالکی اور ابوعبداللہ القرطبی
رحمہما اللہ نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔
(۳) امام
احمد بن حنبل، علی ابن المدینی،ابوزُرعہ، ابوحاتم رازی،
ابومحمد بن حزم ظاہری، ابن ابی زید المعروف بمالک ن الصغیر،
ابواسحق زَجّاج وغیرہ نے اس قول کو اختیار کیا ہے، کہ اعمال
تولے جائیں گے۔ ”الفقہ الأکبر“ میں بھی یہی
لکھا ہوا ہے۔ یہی امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی
رائے ہے،اسی لیے فرمایا: وأنَّ
اعمال بنی آدم وقولہم یوزن. حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة
اللہ علیہ نے اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ بعض علماء
نے یہ قول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے،
جیساکہ ”تفسیر کبیر“ للرازی اور ”تفسیر قرطبی“
وغیرہ میں ہے۔
پہلے قول کے دلائل
پہلے قول یعنی اصحابِ اعمال
تولے جانے کی دو دلیلیں ہیں:
(۱) وہ روایت
جو ”صحیح بخاری“، ”کتاب التفسیر“ میں گذرچکی ہے: عن ابی ہریرة عن رسول اللّٰہ
صلى الله عليه وسلم أنہ قال: انہ لیأتی الرجلُ العظیمُ السمینُ
یومَ القیامةِ لایزِنُ عندَ اللّٰہ جناحَ بَعوضةٍ . ”قیامت
کے دن ایک بہت بڑا موٹا انسان آئے گا، اللہ تعالیٰ کے یہاں
مچھر کے پَر کے برابر بھی اس کا وزن نہیں ہوگا۔“
(۲) امام
احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”مُسْنَد“ میں اور امام
بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”الادب المفرد“ میں حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت نقل کی ہے، کہ ایک
مرتبہ رسول اللہ صلى الله عيله وسلم نے ان کو پیلو کے درخت پر چڑھ کر مسواک
توڑنے کے لیے فرمایا، ان کی پنڈلیاں باریک اور پتلی
تھیں، تو ہوا ان کو اِدھر اُدھر جھکانے لگی، صحابہٴ کرام رضی
اللہ عنہم ہنس پڑے، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہنسنے کا سبب پوچھا، عرض کیا:
یا نبی اللہ! ان کی پنڈلیوں کے پتلے ہونے کی وجہ سے
ہم ہنس رہے ہیں۔ ”مسند احمد“ کی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ عنہ کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے
فرمایا: والذی نفسی بیدہ، لہما أثقل فی
المیزان مِن أحُد. اور ”مسند احمد“ کی حضرت علی
رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے: لرجل عبد
اللّٰہ أثقل فی المیزان یوم القیامة من احد،
”الأدب المفرد“ کی حضرت علی رضى الله تعالى عنه کی روایت
میں ”یوم القیامة“ کے الفاظ نہیں ہیں۔ ”قسم
ہے اس ذات کی، جس کے قبضہ میں میری جان ہے، یہ دونوں
پنڈلیاں میزان میں یا عبداللہ کا پاؤں قیامت کے دن
میزان میں اُحُد پہاڑ سے زیادہ وزنی ہوگا۔“
دوسرے قول کی دلیل
دوسرے قول یعنی صحائف اعمال
تولے جانے کی دلیل ”حدیث البطاقة“ ہے، جس میں یہ
مذکور ہے، کہ ایک آدمی کے سامنے ننانوے دفتر پھیلادیے جائیں
گے، ہر دفتر تاحدِّ نظر پھیلا ہوگا، اللہ تعالیٰ کے دریافت
کرنے پر وہ کہے گا، کہ اس کو نہ ان میں سے کسی بات کا انکار ہے، نہ ان
میں اعمال لکھنے والے فرشتوں نے کوئی ظلم کیا ہے، اور نہ ہی
ان گناہوں کے ارتکاب میں اس کی کوئی عذرداری ہے، تو اللہ
تعالیٰ فرمائیں گے، کہ ہمارے پاس تیری ایک نیکی
ہے،اور آج تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا، پھر ایک پرچہ نکالاجائے
گا، اس پر ”اشہد أن لا الہ الا اللّٰہ وأن محمدا
عبدہ ورسولہ“
لکھا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ جہاں وزن ہورہا ہے،
وہاں جا۔ وہ کہے گا، کہ اے پروردگار! اس پرچہ کی ان دفاتر کے سامنے حیثیت
ہی کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: آج تجھ پر ظلم
نہیں کیاجائے گا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
فتُوضع السِجِلّاتُ فی کِفَّةٍ والبِطاقةُ
فی کِفّةٍ، فطاشتِ السجلّاتُ وثَقُلَتِ البِطاقةُ، فَلا یَثْقُلُ مع
اسمِ اللّٰہِ شیءٌ. سارے دفاتر ایک پلڑے میں اور
پرچہ دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا، سارے دفاتر ہلکے اور پرچہ وزن
دار ہوجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے مقابلے میں کوئی
چیز وزنی نہیں ہوسکتی۔“
یہاں اشکال یہ ہوتا ہے، کہ اس
کا مطلب تو یہ نکلا، کہ کوئی بھی موٴمن جہنم میں نہیں
جائے گا، کیوں کہ ہر ایک کے پاس یہ کلمہ ہے۔ اس اشکال کے
پانچ جوابات ہیں:
(۱) بعض
علماء فرماتے ہیں، کہ اس سے مراد وہ کلمہ ہے، جو انسان بعض وقت مرتے ہوئے ایمان
لانے کے لیے پڑھتا ہے، تو یہ کلمہ کلمہٴ ایمانیہ
ہے، اور ایمان ہادمِ سیئات اور مُکفِّر ذنوب ہے۔ اللہ تعالیٰ
فرماتے ہیں: ﴿قل للذین
کفروا ان ینتہوا یغفرلہم ما قد سلف﴾
(الأنفال:۳۸) ”آپ کافروں سے کہہ
دیجیے، کہ اگر یہ لوگ باز آجائیں گے، تو ان کے سارے گناہ
جو پہلے ہوچکے ہیں، سب معاف کردیے جائیں گے۔“ رسول اللہ
صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: الاسلامُ
یَہدِمُ ما کان قبلَہ. ”اسلام سابقہ گناہوں کو مٹادیتا ہے۔“
فقیہ النفس حضرت مولانا رشید
احمد صاحب گنگوہی قدس سرہ ”الکوکب الدری“ میں فرماتے ہیں،
کہ اس پر گناہوں کے دفاتر پیش کیا جانا اس توجیہ کی تردید
کرتا ہے، کیوں کہ موت کے وقت کلمہٴ ایمانیہ نے اس کے کفر
کے زمانے کے گناہوں کو محو کردیا تھا۔
(۲) بعض
علماء فرماتے ہیں، کہ اس سے مراد وہ آخری کلمہ ہے، جو موٴمن کے
منھ سے نکلے۔
حضرت گنگوہی قدس سرہ فرماتے ہیں،
کہ اگر اس توجیہ کو درست مان لیں، تو اس کے پاس اس کلمہ کے علاوہ
دوسرا وہ کلمہ بھی ہوگا، جس کے ساتھ وہ ایمان لایا تھا، حالاں
کہ ”حدیث البطاقة“ سے معلوم ہوتا ہے ، کہ اس کلمہ کے علاوہ اور کوئی
حسنہ اس کے پاس تھا ہی نہیں، لہٰذا یہ توجیہ بھی
چل نہیں سکتی۔
(۳) حکیم
ترمذی اور علامہ ابن تیمیہ رحمہما اللہ کی رائے یہ
ہے، کہ اس سے مراد وہ کلمہ ہے، جو انسان کی زندگی میں کسی
وقت غایت اخلاص سے نکل جائے۔
مبرّد نے ”الکامل“ میں لکھا ہے، کہ ایک
مرتبہ کسی کے جنازہ میں حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ اور
مشہور شاعر فرزدق دونوں موجود تھے، فرزدق نے حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ
سے کہا: ”ابوسعید! معلوم ہے، لوگ کیاکہہ رہے ہیں؟ لوگ کہہ رہے ہیں،
کہ آج کے جنازہ میں بہترین اور بدترین دونوں جمع ہوگئے ہیں۔“
بہترین سے حضرت حسن اور بدترین سے فرزدق کی طرف اشارہ تھا۔
حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ نے فرمایا: کہ ”نہ میں بہترین
ہوں، نہ تم بدترین ہو، لیکن یہ بتاؤ، کہ تم نے اس دن کے لیے
کیا تیاری کی ہے،اور تمہارے پاس اس دن کے لیے کیا
زادِ سفر ہے؟“ فرزدق نے برجستہ کہا: ”شہادة
ان لا الہ الا اللّٰہ وأن محمدًا رسول اللّٰہ.“
انتقال کے بعد فرزدق کو خواب میں کسی نے دیکھا، پوچھا، کیا
بنا؟ کہا: ”اللہ تعالیٰ نے مغفرت فرمادی۔“ دریافت کیا:
کس بناپر؟ کہا: ”اس کلمہٴ طیبہ کی بنیاد پر، جس کا میں
نے حسن بصری رحمة اللہ علیہ کے ساتھ گفتگو میں حوالہ دیا
تھا۔“
انسان کو چاہیے، کلمہ طیبہ کا
وِرْد رکھے، عجب نہیں، کہ کسی وقت دل کی گہرائیوں سے
انتہائی اخلاص کے ساتھ یہ کلمہ زبان سے نکل پڑے، اور بگڑی بنادے۔
ان تینوں توجیہات پر اشکال یہ
ہے، کہ آخری وقت نزع سے پہلے کافر کا کلمہ ایمانیہ پڑھنا اور ایمان
لانا یا آخری وقت موٴمن کاکلمہ پڑھنا یا زندگی بھر
میں کبھی غایت اخلاص سے پڑھ لینا کسی انسان کے ساتھ
خاص نہیں، یہ حالت تو بہت سے لوگوں کو پیش آتی ہے اور
آسکتی ہے، پھر حدیث پاک میں ایک رَجُل کی تخصیص
کی کیا وجہ ہے، چناں چہ حدیث پاک میں ہے: ان اللّٰہ تعالٰی سَیُخَلِّصُ
رَجُلاً مِّن اُمّتی علٰی رُوٴوْسِ الخَلائقِ یومَ
القیامةِ. . . .؟ ”اللہ تعالیٰ قیامت کے
دن سب کے سامنے میری امت میں سے ایک انسان کو ساری
جماعت سے الگ کریں گے . . . .“
اس کا جواب یہ ہے، کہ اس طرح کی
احادیث سے مراد فردِ واحد نہیں ہوتا؛ بلکہ اس وصف کی حامل جماعت
مراد ہوتی ہے۔
(۴) بعض
علماء دو مرتبہ وزن کے قائل ہیں، جیساکہ ماقبل میں عرض کیا
جاچکا۔ پہلی مرتبہ ایمان کا وزن بمقابلہ کفر، دوسری مرتبہ
اعمالِ صالحہ وسیئہ کا وزن۔ تو ”حدیث بطاقة“ میں وزنِ اول
مراد ہے۔ وفیہ مالا یخفٰی.
(۵) حضرت
گنگوہی قدس سرہ فرماتے ہیں، کہ ظاہر یہ ہے کہ ”حدیث
بطاقة“ میں جس آدمی کا ذکر ہے، وہ ایک ایسا مسلمان ہوگا،
جس نے عمر بھر میں کبھی کوئی حسنہ نہیں کیا ہوگا،
اور بلاتوبہ کے مرگیا ہوگا۔ گویا یہ ایک استثنائی
صورت ہے، جو عام ضابطہ سے الگ مخصوص فضل وکرم کا مظہر ہے۔
تنبیہ
بعض علماء نے صحائف اعمال تولے جانے پر
بطور دلیل وہ روایت ذکر کی ہے، جس میں یہ مذکور ہے،
کہ امت محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاة والسلام کے ایک آدمی
کو ملائکہ جہنم کی طرف لے جارہے ہوں گے، حضرت آدم علیہ السلام کی
نظر پڑے گی، تو آپ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس طرف متوجہ کریں
گے۔ آخرش رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی درخواست پر اللہ تعالیٰ
فرشتوں کو رکنے کے لیے فرمائیں گے۔ رسول اللہ صلى الله عليه
وسلم انگلی کے پورے کے بقدر ایک پرچہ نکال کر بسم اللہ بول کر اُس آدمی
کے لیے قائم میزان کے دائیں پلڑے میں ڈالیں گے، تو
نیکیوں والا پلڑا وزنی ہوجائے گا۔ اور اس کے لیے
جنت کا فیصلہ ہوجائے گا۔ اس آدمی کے دریافت کرنے پر رسول
اللہ صلى الله عليه وسلم اپنا تعارف کرائیں گے، اور فرمائیں گے، کہ یہ
وہ درود شریف تھے، جو تو مجھے بھیجتا تھا۔ اس روایت کو
ابن ابی الدنیا نے ”کتاب حسن الظنّ باللّٰہ“ میں اور واحدی
نے ”البسیط“ میں نقل کیا ہے۔ لیکن علامہ سخاوی
رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ : سَندُہ ہالک.
تیسرے قول کے دلائل
تیسرے قول یعنی خود
اعمال تولے جانے کے کئی دلائل ہیں، جن میں سے تین دلیلیں
یہ ہیں:
(۱) ”صحیح
بخاری“ کی حدیث الباب: ”کلمتان
حبیبتان الٰی الرحمن، خفیفتان علی اللسان، ثقیلتان
فی المیزان: سبحان اللّٰہ وبحمدہ سبحان اللّٰہ العظیم. اس میں
تصریح ہے، کہ یہ دوکلمے میزان میں بہت ثقیل ہوں گے،
معلوم ہوا، کہ وہ تولے جائیں گے۔
(۲) عن ابی الدرداء رضی اللّٰہ عنہ
عن النبی صلى الله عليه وسلم أنہ قال: ما من شیءٍ اثقلُ فی المیزان
مِن حُسنِ الخُلُق. رواہ الترمذی وابوداود واللفظ لہ صحّحہ ابن
حبّان. ”میزان میں حُسنِ خُلق سے زیادہ وزنی کوئی
عمل نہیں ہوگا۔“
(۳) عن جابر
رضی اللّٰہ عنہ أنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلى الله عليه وسلم:
تُوضعُ الموازینُ یوم القیامة، فتُوزن الحسناتُ والسیئات.
رواہ خیثمة فی فوائدہ. ”قیامت کے دن میزان قائم کی
جائے گی، پھر حسنات و سیئات کا وزن کیا جائے گا۔“
***
--------------------
ماہنامہ دارالعلوم
، شماره 07 ، جلد: 93 رجب 1430 ھ مطابق جولائى
2009ء